Header Ads

عید کے احکام و مسائل

 رمضان کے احکام اور مسائل:سبق نمبر ۹عید کے احکام اور مسائل


عید کے احکام اور مسائل
یہ سبق تھوڑا لمبا ہے لیکن ان شا اﷲ بہت فائدہ مند ہوگا۔یہ ”رمضان کے احکام اور مسائل“ کا آقری سبق ہے۔

زکوٰۃ الفطر
رمضان کے ختم ہونے پر ایک زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔اُس دن جب اسے ادا کرنا ہے اسے عید الفطر کہتے ہیں،جو روزوں کے ختم ہونے کی خوشی کا دن ہے۔حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ(صدقہ فطر)ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دی تھی-غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔آپ کا حکم یہ تھا کہ نماز(عید)کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کردیا جائے۔(صحیح بخاری جلد ۲، ۱۵۰۳،صحیح مسلم جلد ۳، ۲۲۷۸)(الفاظ صحیح بخااری کے)

زکوٰۃ الفطر کے احکام
صحیح قول یہ ہے کہ یہ فرض ہے،کیونکہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ آزاد یا غلام،مرد یا عورت تمام مسلمانوں پر ایک صاع کھجور یا جو فرض کی تھی۔(صحیح بخاری جلد ۲، ۱۵۰۴) اور کیونکہ علماء کرام کا اس پر اجماع ہے۔{المغنی،حصہ ۲، باب صدقۃ الفطر}

زکوٰۃ الفطر کی حکمت
زکوٰۃ الفطر روزہ دار کو فحش یا فضول گفتگو سے پاک کرتا ہے،اگر وہ روزہ کی حالت میں اس میں شامل ہوا ہو۔ اور غریبوں کو عید کے دن دوسروں سے مانگنے کی ذلت سے بچاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے صدقہ فطر کو اس لیے فرض کیا ہے تاکہ روزہ دار(دورانِ روزہ کی ہوئی)لغو اور فحش حرکات سے پاک ہو جائے اور مساکین کو کھانے کا سامان مل سکے۔(ابوداود ۱۶۰۹، ابن ماجۃ ۱۸۶۴)

کس پر یہ واجب ہے؟
ایک آدمی کو اپنی اور اپنی بیوی کی طرف سے،حتی کہ اس کے خد کی دولت ہو، اور اپنے بچے اور ماں باپ،اگر وہ غریب ہیں، اور اپنی بیٹی،اگر اسکا نکاح ہو چکا ہے لیکن اسکا نکاح مکمل نہیں ہوا،ان سب کی طرف سے زکوٰۃ الفطر ادا کرنا ہوگا۔ اگر بیٹا امیر ہے تو اس کی طرف سے ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ شوہر کو اپنی طلاق شدہ بیوی کی طرف سے زکوٰۃ الفطر ادا کرنا چاہیے اگر اسکا طلاق ابھی پورا نہیں ہوا(یعنی پہلے یا دوسرے طلاق کی عدت پوری نہیں ہوئی)، لیکن اگر بیوی سرکش ہو یا اسکا طلاق پورا ہو چکا تو اس کی طرف سے ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ بیٹے کو اپنے غریب باپ کی بیوی کی طرف سے ادا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس پر خرچ کرنا واجب نہیں۔

جب زکوٰۃ الفطر ادا کرے تو قریبی لوگوں سے شروع کرے، پہلے اپنی طرف سے، پھر بیوی، پھر بچے، پھر باقی قریبی رشتہ دار کی طرف سے جیسا کہ وراثت کے حکم ہیں۔

زکوٰۃ الفطر کی طور پر کیا دیں
ایک صاع اناج دینا چاہیے،نبی کریم ﷺ کے صاع پیمانہ کے مطابق،اس حدیث کی وجہ سے۔

ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع زبیب(خشک انگور یا خشک انجیر)نکالتے تھے۔(صحیح بخاری جلد ۲، ۱۵۰۸)
ایک صاع تقریباََ ۳ کلو ہے۔

زکوٰۃ الفطر پیسے کی شکل میں نہیں دے سکتے،کیونکہ نبی کریم ﷺ نے کہا کہ اسے اناج کی شکل میں دینا چاہیے، پیسے کی نہیں۔ آپ ﷺ نے واضح طور پر کہا کہ اسے اناج کی شکل میں دیا جائے،اسی لئے اسے کسی اور شکل میں دینا جائز نہیں اور اسلام چاہتا ہے کہ اسے چھپا کر نہ دیں بلکہ کھلے آم دیں۔ صحابہ کرام زکوٰۃ الفطر اناج کی شکل میں دیتے تھے،اور ہمیں اسی کو اپنانا چاہئے نہ کہ بدعت کریں۔



زکوٰۃ الفطر دینے کا وقت
اسے عید کی نماز سے پہلے دینا چاہیے جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے صدقہ فطر نماز(عید)کے لیے جانے سے پہلے نکالنے کا حکم دیا تھا۔(صحیح بخاری جلد ۲، ۱۵۰۹)

زکوٰۃ الفطر ادا کرنے کا سب سے افضل وقت عید کے دن صبح صادق سے عید کی نماز سے تھوڑا پہلے۔ حالانکہ جو لوگ عید کی صبح سے پہلے(یعنی ایک یا دو دن پہلے) دیتے ہیں وہ بھی یہ فرض پورا کرتے ہیں۔ جو لوگ عید کی نماز کے بعد ادا کرتے ہیں، وہ نفلی صدقہ ہوگا۔ یعنی وہ زکوٰۃ الفطر نہیں ہوگا۔

زکوٰۃ الفطر کو ادا کرنے میں نماز کے بعد تک ٹالنا ناپسند(مکروح)ہے۔ کچھ علماء کرام نے کہا ہے کہ یہ حرام ہے اور اسے قضاء سمجھا جائےگا(چھوٹی ہوئی عبادت کو پورا کرنا)، اس حدیث کے بنیاد پر، حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی روایت میں یہ لفظ ہیں:”جس نے اسے نماز(عید) سے پہلے ادا کردیا تو یہ قابل قبول زکوٰۃ ہوگی اور جس نے نماز کے بعد اسے ادا کیا تو وہ صرف صدقات میں سے ایک صدقہ ہی ہے(یعنی صدقہ فطر نہیں ہوگا)۔“(ابو داود)

زکوٰۃ الفطر کے مصارف
زکوٰۃ الفطر کے مستحق وہی آٹھ لوگ ہیں جو مال و دولت پر زکوٰۃ لینے کے حقدار ہیں۔ غریب اور مسکین سب سے زیادہ زکوٰۃ الفطر کے مستحق ہیں۔


عید کی نماز

عید الفطر کے سنتیں
شوّال(رمضان کے بعد کا مہینہ) کے پہلے دن مسلمان ان مسنون اعمال کرکے عیدگاہ جاتا ہے۔
     ñ            غسل۔
     ñ            بہترین کپڑوں میں ملبوس ہو کر(ترجیح طور پر نئے کپڑے)۔
     ñ            کچھ کھجور کھان اس طرح جیسے کہ ہم افطار کر رہے ہیں۔یہ نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق ہے اور طاق کھجور(جیسے۱،۳،۵،۷...) کھانا پسندیدہ ہے۔
     ñ            عید گاہ جاتے وقت اونچی آواز سے تکبیر کہنا سنت ہے۔
     ñ            عید کی نماز مصلہ(کھلی جگہ) میں پڑھنا سنت ہے۔نبی کریمﷺ کبھی عید کی نماز مسجد میں نہیں پڑھی۔
     ñ            عید گاہ پیدل جانا سنت ہے۔عید گا میں آنے پر آدمی بیٹھتا ہے اور نماز شروع ہونے کا انتظار کرتا ہے۔

عید کی نماز
۱. طلوع آفتاب کے تقریباََ ۲۰منٹ باد امام نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور اونچی آواز میں تکبیر تحریمہ،'اﷲ اکبر' کہ کر نماز شروع کرتا ہے۔ اور سارے مقتدی بھی تکبیر تحریمہ کہ کر شروع کرتے ہیں۔

۲. پھر دوسری نمازوں کی طرح دعاء استفتاح پڑھ کر قرآت کی ابتدا کریں۔

۳. اس کے بعد امام ۶ بار اﷲ اکبر کہیں گےاور سارے مقتدی امام کی اقتدا کریں گے۔

۴. تکبیر کہ کہنے کہ بعد،جو کل ۷ مرتبہ کہتے ہیں،امام ”أعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم“ پڑھ کر مردود شیطان سے اﷲ کی پناہ مانگتا ہے۔پھر ”بسم اﷲ الرحمن الرحیم“ پڑھتا ہے اور پھر سورۃ فاتحہ اونچی آواز سے پڑھتا ہے۔ جب امام سورۃ فاتحہ کی تلاوت ختم کرتا ہے،تب مقتدی اونچی آواز سے آمیں کہتے ہیں۔ پھر ہر مقتدی آہستہ سے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتا ہے۔ یہ تجویز کی جاتی ہے کہ امام اس کے بعد قرآن کی سورۃ  ۸۷ ”سبّح اسمَ“ (اپنے رب کے نام کی تسبیح) یا سورۃ ۵۰ سورۃ ق کی تلاوت کرے اور سارے مقتدی امام کی تلاوت کو سنیں۔

۵. پھر امام اپنے ہاتھ کندھے یا کان کے برابر اٹھا کر اﷲ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جائے۔ پھر رکوع سے امام اپنا سر اٹھاتے ہوئے ”سمع اﷲ لمن حمدہ“ کہے اور مقتدی امام کی اقتدا کرتے ہوئے ”ربنا ولک الحمد“ کہے۔ امام اور مقتدی اﷲ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں جائیں گے۔

۶. سجدہ کے بعد امام دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور مقتدی امام کی اقتدا کرتے ہیں۔

۷. پھر امام ۵ مرتبہ اﷲ اکبر کہتا ہے اور مقتدی بھی اسی طرح امام کی اقتدا کرتے ہیں، اور دو تکبیروں کے بیچ دعا پڑھتے ہیں،جیسے جملہ ۴ میں بتلایا گیا۔

۸. پھر امام سورۃ فاتحہ پڑھتا ہے اور یہ تجویز کی جاتی ہے کہ قرآن کی سورۃ ۸۸ ”الغاثیۃ“ یا سورۃ ۵۴ ”القمر“ کی تلاوت کرے اور مقتدی امام کی تلاوت کو سنیں۔

۹. اس کے بعد امام رکوع اور سجدہ اوپر بتائے گئے طریقہ سے پورے کر کے تشھد کے لئے بیٹھتا ہے۔ پھر امام اسلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہہ کر سلام پھیرتا ہے اور مقتدی ان سارے اعمال میں امام کی اقتدا کرتے ہیں۔

         ·            نماز ختم ہونے کے بعد امام خطبہ دینے کے لئے منبر پر چڑھتا ہے اور خطبہ کا آغاز اﷲ اکبر ۹ مرتبہ کہہ کر کرتا ہے اور مقتدی یہی کہہ کر امام کی اقتدا کرتے ہیں۔ خطبہ سننے کے بعد مقتدی منتشر ہو جاتے ہیں۔ خطبہ سننے کی تجویز کی جاتی ہے لیکن یہ فرض نہیں۔

         ·            جابر رضی اﷲ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ عید کے دن ایک راستہ سے جاتے پھر دوسرا راستہ بدل کر آتے۔(صحیح بخاری جلد۲، ۹۸۶)

مبارکباد دینا
عید کے آداب میں یہ بھی شامل ہے مبارکباد اور دعا ایک دوسرے کو دیں، چاہے جو بھی الفاظ ہو، جیسے ”تقبل اﷲ منا ومنکم“ (اﷲ تعالیٰ ہم اور تم سے قبول فرمائے) یا عید مبارک اور دیگر جائز الفاظ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کرام عید کے روز جب ایک دوسرے کو ملتے تو ایک دوسرے کو کہتے”تقبل اﷲ منا ومنک“اﷲ تعالیٰ مجھ اور آپ سے قبول فرمائے۔حافظ رحمہ اﷲ تعالیٰ کہتے ہیں:اس کی سند حسن ہے۔

عید الاضحی
عید الاضحی کی نماز اسلامی ہجری تاریخ کے بارویں(۱۲) مہینہ کی ۱۰ تاریخ کو پڑھی جاتی ہے اور اس کا طریقہ عید الفطر کی نماز کی طرح ہے۔

عورتوں کا عید کی نماز کو جانا
عورتوں کا عید کی نماز کے لئے جانا فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔عورتوں کو عید کی نماز مسلمانوں کے ساتھ ادا کرنی چاہئے کونکہ رسول کریم ﷺ نے اس کا حکم دیا ہے۔ام عطیہ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ عیدین کے لئے کنواری لڑکیوں جوان و پردہدار اور حائضہ عورتوں کو نکلنے کا حکم دیتے تھے حائضہ عورتیں عید گاہ سے باہر رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوتیں ان میں سے ایک نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا :”تو اس کی بہن اسے چادر ادھار دیدے۔“(ترمذی جلد ۱، ۵۲۲)

اس سے یہ صابت ہے کہ عورتوں کے لئے باہر جاکر عید کی نماز میں شریک ہونا سنت ہے،شرط یہ ہے کہ وہ بغیر پردہ کے یا اپنے آپ کو ظاہر کرتے نہ جائیں۔

No comments

Powered by Blogger.