The value and importance of time وقت کی قدر
وقت
کی قدراور اہمیت
حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَ
یَعْنِیْةِ
وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں ایک گرانقدر نعمت
ہے، پگھلتے برف کی طرح آناً فاناً گذرتا رہتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے تیزی کے ساتھ
مہینے اور سال گذر جاتے ہیں۔
پس وقت کی قدردانی بہت ضروری ہے، وقت کو صحیح استعمال کرنا،
بیکار اور فضول ضائع ہونے سے بچانا انتہائی ضروری ہے، وقت کو فضول ضائع کردینے پر بعد میں انسان
کو جو حسرت و پچھتاوا ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ سوائے ندامت کے اس کے
تدارک کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ جو لمحہ اور گھڑی ہاتھ سے نکل گئی وہ دوبارہ ہاتھ
میں نہیں آسکتی، لہٰذا عقلمندی کاکام یہ ہے کہ آغاز ہی میں انجام پر نظر رکھے،
تاکہ حسرت و پچھتاوے کی نوبت نہ آئے۔
حدیث میں ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں کہ جب وہ طلوع ہوتا ہو
مگر یہ کہ وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! میں ایک نوپید مخلوق ہوں،
میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہو تو کرلے، میں قیامت تک لوٹ کر
نہیں آؤں گا۔ دنیا کی تمام چیزیں ضائع ہوجانے کے بعد واپس آسکتی ہیں۔ لیکن ضائع
شدہ وقت واپس نہیں آسکتا۔
کہنے والے نے صحیح کہا ہے ”اَلْوَقْتُ
اَثْمَنُ مِنَ الذَّہَبِ“ وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ایک عربی
شاعر کہتا ہے:
حَیَاتُکَ اَنْفَاسٌ تُعَدُّ
فَکُلَّمَا * مَضٰی نَفَسٌ
مِنْہَا اِنْقَضَتْ بِہ جُزْء
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”مِنْ حُسْنِ
اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَ یَعْنِیْةِ“ آدمی کے اسلام
کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑ دے۔
اس حدیث میں لطیف پیرایہ میں اضاعت اوقات سے ممانعت
اورحفاظت اوقات کے اہتمام کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی ہر ایسے قول وعمل اور فعل و
حرکت سے احتراز کرے جس سے اس کا خاطر خواہ اورمعتد بہ دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو
وقت
ایک عظیم نعمت ہے
وقت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قیمتی سرمایہ ہے۔ اس
کی ایک ایک گھڑی اورہرسکنڈ اور منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا
نہیں کرسکتی، لیکن آج ہم وقت کی کوئی قدر نہیں کرتے کہ یونہی فضول باتوں میں اور
لغو کاموں میں ضائع کردیتے ہیں۔
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک برف فروش سے مجھ کو بہت عبرت
ہوئی، وہ کہتا جارہا تھا کہ اے لوگو! مجھ پر رحم کرو، میرے پاس ایسا سرمایہ ہے جو
ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہماری بھی حالت ہے کہ ہر لمحہ برف کی
طرح تھوڑی تھوڑی عمر ختم ہوتی جاتی ہے۔ اسے پگھلنے سے پہلے جلدی بیچنے کی فکر کرو۔
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب کے پاس ایک طالب علم نے آکر کھیل کے
متعلق سوال کیا، حضرت نے فرمایا کیوں کھیلتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ وقت پاس کرنے
کو کھیلتے ہیں، اس پر فرمایا کہ وقت پاس کرنے کیلئے یہاں آجایا کریں، وقت گذارنے
کا طریقہ بتلادوں گا۔ کتاب دیدوں گا کہ یہاں سے یہاں تک یاد کرکے سنائیں، اس کے
بعد فرمایا وقت حق تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اسے غبار سمجھ کر پھینک دینا بڑی ناقدری
ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے اشرفیوں کا ڈھیر کسی کے سامنے ہو اور وہ ایک ایک اٹھاکر
پھینکتا رہے۔
امام
رازی اور وقت کی حفاظت
امام رازی کے نزدیک اوقات
کی اہمیت اس درجہ تھی کہ ان کو یہ افسوس ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت کیوں علمی مشاغل
سے خالی جاتا ہے۔
چنانچہ فرمایاکرتے تھے: ”وَاللّٰہِ
اِنِّی اَتَاَسَّفُ فِی الْفُوَاتِ عَنِ الْاِشْتِغَالِ بِالْعِلْمِ فِیْ وَقْتِ
الْاَکْلِ فَاِنَّ الْوَقْتَ وَالزَّمَانَ عَزِیْزٌ“ یعنی خدا کی
قسم! مجھ کو کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ وقت
متاع عزیز ہے
حافظ
ابن حجر اور حفاظت وقت
حافظ ابن حجر عسقلانی کے حالات میں آتا ہے کہ وہ وقت کے بڑے
قدردان تھے۔ ان کے اوقات معمور رہتے تھے۔ کسی وقت خالی نہ بیٹھتے تھے۔
تین مشغلوں میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مصروف رہتے
تھے،مطالعہٴ کتب یا تصنیف و تالیف، یا عبادت۔ (بستان المحدثین)
حتی کہ جب تصنیف
و تالیف کے کام میں مشغول ہوتے اور درمیان میں قلم کا نوک خراب ہوجاتا تو اس کو
درست کرنے کیلئے ایک دو منٹ کا جو وقفہ رہتا، اس کو بھی ضائع نہ کرتے، ذکر الٰہی
زبان پر جاری رہتا اور نوک درست فرماتے اور فرماتے وقت کا اتنا حصہ بھی ضائع نہیں
ہونا چاہئے
No comments